January 29, 2015

پیسا مینار پر بندہ خوار




اٹلی میں یوں تو ہر شہر دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے کہ کہیں تاریخ ہے کہیں خوبصورتی ہے کہیں عجائبات عالم ہیں تو کہیں قدرتی نظارے کہیں ماکولات اور کہیں نامعقولیات۔ لیکن اگر اس فہرست کو مختصر کرنا ہو تو تین نام ذہن میں آتے ہیں روم، وینس اور پیسا (پِزا :اطالوی)۔ اس کے بعد میلان، فلورنس (فرینزے:اطالوی) نیپلز (ناپولی :اطالوی) اور سسلی کے نام آتے ہیں۔ اب وینس ہم کب کے گھوم چکے تھے اور روم جانے کا امکان نظر نہیں آ رہا تھا تو سوچا کیوں نہ اس بار پیسا مینار اور فلورنس کی زیارت کی جائے۔ مسئلہ یہ ہے کہ میرے میزبان پادووا میں رہتے ہیں جو کہ بالائی اٹلی میں ہے یہ پیسا اور فلورنس وسطی اٹلی میں پائے جاتے ہیں جو کہ نقشے پر بھلے ہی انگلی کی ایک پور جتنے دور ہوں لیکن اصل میں وہ پادووا سے چھ گھنٹے کی مسافت پر ہیں اور ہمارے میزبان ایسے ہیں کہ پانچ بار بلا کر وعدہ کر کے چار گھنٹے دور سلوینیا نہیں لے گئے ۔


 بہرحال میں نے ترکیب یہ نکالی کہ میزبان کو بتا دیا کہ میلان جہاں ہر بار آتا ہوں وہاں کی ٹکٹ مل نہیں رہی لہذا سستی ٹکٹ کے لیے مجھے پیسا آنا ہوگا۔ آخر ان کو حامی بھرنی ہی پڑی اور پیسا لینے آنے کے لیے راضی ہونا ہی پڑا اور میں نے دل ہی دل میں اپنی چالاکی کو داد دی کہ اگر پادووا جاتے تو قطعاً ممکن نہ تھا کہ وہ پیسا دکھانے پر راضی ہوتے۔

خوشی خوشی لزبن سے چلے اور پیسا پہنچے تو راستے میں پتہ چلا اصل میں اس پرواز کا مقصد فلورنس کے لیے ہے لیکن جیسا کہ یورپ میں رواج ہے کہ بڑے شہروں کے پاس قصبوں میں پروازوں کو فروغ دیتے ہیں تاکہ فضائی آلودگی پر قابو پایا جا سکے اور قصبے بھی ترقی کر سکیں تو ایسے میلان کی بجائے بیرگامو کی پرواز اس سے کہیں سستی ہے اور فضائی کمپنیاں محض پانچ، سات یورو کے عوض بس پر بیٹھا کر میلان بھی پہنچا دیتے ہیں تو یہی کہانی فلورنس کے لیے بھی تھی کہ فلورنس کی مہنگی ٹکٹ لینے کی بجائے پیسا چلے جاؤ اور بس پر ڈیڑھ گھنٹے میں فلورنس پہنچ جاؤ۔ ہمارا کیا جاتا تھا بلکہ فلورنس جس کو دنیا کے خوبصورت ترین شہروں میں سے ایک قرار دیا جاتا ہے دیکھنے کا موقع بھی مل رہا تھا باقی میری طرف سے پانچ یورو میں بے شک لزبن سے فلورنس بس پر پہنچا دیں میں خوشی خوشی جاؤں گا۔

جب پیسا پہنچے تو رات ہو چکی تھی۔ ہوائی اڈا اتنا چھوٹا ہی تھا جتنا ایسے قصبوں کا ہوتا ہے اور ہم میزبانوں کے ہمراہ سب سے پہلے پیسا مینار کے دیدار کو نکلے۔ پیسا مینار دیکھ کر براستہ بولوگنا (بلونیا :اطالوی) ہم نے پادووا جانا تھا۔ پیسا شہر اتنا چھوٹا تھا کہ پارکنگ ڈھونڈتے ڈھونڈتے ہی ہم شہر سے باہر پہنچ گئے اور پھر دوبارہ شہر جا کر کہیں پارکنگ کی جگہ ڈھونڈی۔

 اگر آپ کو بچپن میں غیر نصابی کتب پڑھنے کا شوق رہا ہو تو آپ پیسا مینار کے نام سے بخوبی واقف ہوں گے کہ اس کو دنیا کے ان چند عجائب میں شامل کیا جاتا ہے جو ابھی تک دنیا میں پائے جاتے ہیں اور اس کا شمار بابل اور نینوا کے باغات، اہرام مصر وغیرہ کے ہمراہ کیاجاتا ہے جس وجہ سے ہم پیسا سے انتہائی متاثر تھے۔ ویسے تو اب عجائبات کی بھی دو نمبر فہرست آ گئی ہے جس میں تاج محل، پاکستانی قوم اور پتہ نہیں کیا کیا الا بلا ڈالا ہوا ہے۔ لیکن پیسا مینار تو اصلی اور وڈی عجائبات کی فہرست میں شامل رہا ہے اس لیے جیسے جیسے ہم اپنی منزل کے پاس جارہے تھے اتنی ہی خوشی ہورہی تھی کہ دنیا ایک مشہور ترین عمارت دیکھنے جا رہے ہیں۔

پیسا مینار ایک احاطے میں واقع ہے جس کو پیازہ دِل دومو Piazza del Duomo یعنی احاطہ معجزات کہا جاتا ہے جہاں قلعہ نما چار دیواری کے اندر ایک کتھیڈرل یعنی بڑا گرجا قائم ہے ایک پیسا مینار ہے اور ایک بپتسمہ گاہ بنام سینٹ جیوانی جنکو انگریزی میں جون کہا جاتا ہے (Pisa Baptistry of St. John (Italian: Battistero di San Giovanni قائم ہے ۔ پیسا مینار کتھیڈرل کا ایک حصہ ہی ہے جو کہ اصل عمارت سے چند قدموں پر واقع ہے۔ رات کا وقت تھا اور ہم نے احاطے میں داخل ہوتے ہوئے تصویر کھینچوائی اور جب کتھیڈرل کے دروازے پر پہنچے تو دل ڈوب سا گیا اور احتیاطاً خاموشی اختیار کیے رکھی۔ جب مینار کے نیچے پہنچ کر ہمارے میزبانوں نے تصویر کشی شروع کی تو ہماری برداشت جواب دے گئی اور میں پوچھ بیٹھا یہی ہے پیسا مینار۔ انہوں نے جواب دیا جی ہاں۔ اور میں دنیا کی بے ثباتی پر فقط ایک ٹھنڈی آہ ہی بھر سکا۔

ایک آٹھ منزلہ عمارت جو کہ چرچ سے چند فٹ ہی اونچی تھی، خوبصورتی میں بھی ماٹھی سی تھی اور جہاں روشنی کا بھی کوئی ایسا انتظام تھا کا نام پیسا مینار تھا۔ دنیا کے عجائبات میں سے ایک پر چند لڑکے بالے گاڑی اس کے عین نیچے کھڑی کر کے غل غپاڑہ کر رہے تھے مجھے خیال آیا اس سے زیادہ روشنی تو احمد پور شرقیہ کے قینچی موڑ کے مٹی کے میدان میں ہوتی ہے اور اس سے زیادہ احتیاط تو ہم نے داتا دربار کی کر چھوڑی ہے۔ عمارت اجڑی سی تھی، احاطے کی دیواروں پر مرمت کی شدید ضرورت تھی۔ تاہم ہر پانچ دس منٹ بعد کوئی نہ کوئی آتا تصویر اترواتا اور تصویر اتروانے میں ایک شے لازمی تھی کہ کوئی ایسا انداز اختیار کریں کہ یا تو گرتے مینار کو گرا رہے ہیں یا تھام رہے ہیں یا سیدھا کررہے ہیں۔

 مجھے ان تمام مصنفین پر غصہ آیا جنہوں نے بچپن سے ہی پیسا کے گرتے مینار کی رٹ لگائی ہوئی تھی اور مجھے یقین آگیا کہ ان سب نے ہمارے اکثر مصنفوں کی طرح اس جگہ گئے بغیر ہی سفرنامے لکھے ہیں ایسے ہی ان تمام لوگوں نے گوگل کی مہربانی سے اس چھوٹے سے مینار کو جس سے تو ہماری اکثر مساجد کے مینار اونچے ہیں اور خوبصورت ہیں کو دنیا کے عجائبات میں شمار کردیا۔ پھر خیال آیا کہ ہو سکتا ہے باقی عجائبات بھی اسی معیار کے ہوں کہ لکھنے والوں کو کون پکڑ سکتا ہے جیسے بی بی سی پر ایک سروے میں امیتابھ بچن کو دنیا کا بہترین اداکار قرار دیا گیا اب بھارتی عوام کی تعداد ہی اتنی ہے کہ ان سے پوچھیں گے تو جیتیں گے وہی باقی جو فلمیں وہاں چلتی ہیں وہ بھی آپ کے سامنے ہیں لگتا ہے کہ چین میں بی بی سی پر پابندی ہے ورنہ دنیا کا بہترین ادا کار کسی چو چن چان نے ہونا تھا۔

کہتے ہیں کہ گلیلو صاحب اسی مینار پر چیزیں گرا گرا کر تجربے کیا کرتے تھے اب یا تو انہی نے چیزیں گرا گرا کر اس مینار کا توازن خراب کردیا یا اس مینار نے ان کے ذہنی توازن پر خرابی قائم کی تبھی انہوں نے ایسی واہی تباہی لکھی تھی اور ہو سکتا ہے انہوں نے اپنے تجربہ گاہ کی محبت میں اس کو عجائبات عالم میں شمار کر دیا ہو اور چونکہ گلیلو صاحب مذہبی خوار ہوں لیکن سائنس کے پیغمبر ہیں لہذا کون ان کی بات جھٹلاتا ویسے بھی اس زمانے میں جس کا جو دل چاہتا تھا کرتا تھا جیسے ہمارے ہاں ہرن مینار بن گیا یا ایک بادشاہ نے اپنے گھوڑے کو علاقے کا گورنر بنا دیا بس کرنے والے کر گئے اور ہم بھگت رہے ہیں۔

بہرحال افسوس سمیٹے کہ ایک بار دیکھا ہے اور اپنی عقل پر ماتم کیا ہے اور آدھے گھنٹے میں ہی ہم وہاں سے براستہ بلونیا پادووا کے لیے روانہ ہوگئے اور اگلے تین چار دن پادووا میں گزارے اور سلوینیا ایک بار پھر حسب معمول نہ جاسکے تاہم واپسی پر فلورنس کا دیدار ہو گیا جس کو دنیا کے خوبصورت ترین شہروں میں سے ایک کہا گیا ہے جس کا حال بھی جلد ہی پیش کروں گا۔ اب آپ پیسا کی تصاویر دیکھیں مزے لوٹیں۔

پیسا ہوائی اڈے پر ایک مجسمہ
پیسا شہر میں


داخلہ احاطہ- دور پیسا مینار دیکھ سکتے ہیں

کل تین عمارتیں

کتھیڈرل اور مینار

بپتسمہ گاہ


کتھیڈرل کا سائیڈ پوز


آگیا وہ شاہکار- کہتے ہیں جیسے پیسا مینار

مینار کے نیچے کار

ہم نے مینار سیدھا کر دیا







دیوار کی زبوں حالی
روایت نبھاتے ہوئے ہمارے میزبان

پیسا مینار مزید شدت سے سیدھا کرنے کی کوشش

میں نہ سہی میں نے اس پیالے کے ذریعے ہی شہیدوں میں نام لکھوا لیا